ضلع چکوال سے تازہ ترین خبریں

ہیڈلائن نیوز

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 10 مئی، 2020

ایبٹ آبادکے بسم اللہ ہوٹل میں سحری




تحریر :۔ ڈاکٹر اکرام الحق اعوان 
ایبٹ آباد کے بسم اللہ ہوٹل میں سحری سے فارغ ہوئے تو مانسہرہ کا رخ کیا۔ مانسہرہ ایبٹ آباد سے صرف بیس بائیس کلومیٹر کی دوری پر ہے ۔ دن کے اوقات میں ایبٹ آباد مانسہرہ شاہراہ پر گاڑیوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہوتی ہے کہ بیس کلومیٹر کا سفر مبشکل ایک گھنٹے میں طے ہوتا ہے لیکن صبح ساڑھے تین بجے مانسہرہ روڈ خالی تھا۔ اس لئے پچیس منٹ میں مانسہر ہ پہنچ گئے۔ ہم نے گاڑی میں 4300کا پٹرول بوچھال کلان سے چلتے وقت ڈلوایا تھا۔ اب تقریباً 300کلومیٹر کا سفر طے ہو چکا تھا۔ مانسہرہ کے بعد قراقرم ہائی وے پر کوئی اندازہ نہ تھا کہ پٹرول پمپ کس کس جگہ پر واقع ہیں اس لئے عقلمندی کا تقاضا یہی تھا کہ کچھ نہ کچھ پٹرول ڈلوا لیا جائے تا کہ بعد میں کسی پریشانی کا سامنا نہ ہو۔ اس لئے مانسہرہ میں ایک پٹرول پمپ سے 2600روپے کا پٹرول ڈلوایا۔ اسی پٹرول پمپ سے بابو سرٹاپ روڈ کی تازہ ترین صورتحال کے بارے پتہ کروایا۔ ارادہ تھا کہ اگر یہ روڈ کھل گئی ہو تو پھر اسی روڈ سے چلا جائے کیوں کہ اس طرح ہمارا سفر کافی کم ہو جاتا۔ لیکن شومئی قسمت کہ روڈ ابھی تک بند تھی اور اطلاع یہ تھی کہ ابھی یہ روڈ کھلنے میں پانچ دس دن مزید لگ جائیں گے۔ یعنی کہ شائد ہماری واپسی بھی اسی روڈ سے ہوتی۔ بہرحال خدا کا نام لیا اور شاہراہ قراقرم پر داخل ہو گئے۔ شاہراہِ قراقرم دنیا کی بلند ترین پکی سڑک ہے جسکی اونچائی خنجراب کے مقام پر 15466فٹ تک ہو جاتی ہے۔ اس سڑک کو پاکستان اور چین کے انجینئرز نے مل کر بنایا ہے اس لئے اسے شاہراہِ دوستی بھی کہا جاتا ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کا آغاز 1959ءمیں ہوا جبکہ اسکی تعمیر 1979ءمیں مکمل ہوئی۔یوں اس سڑک کو بننے میں بیس سال کا طویل عرصہ لگا۔ اس دوران سڑک کی تعمیر کے دوران تودے گرنے اور بلاسٹ کے باعث سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں۔ جن میں تقریباً 810 پاکستانی اور 200کے قریب چائنز شامل ہیں۔ ان میں سے تقریباً 140چائنز کو یہیں گلگت میں چائنز قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اس سڑک کی اونچائی اور اس کو بنانے میں حائل مشکلات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس شاہراہ کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ بھی کہا جاتا ہے۔اس سڑک کی لمبائی 1300 کلومیٹر ہے۔ یہ سڑک پنجاب کے شہر حسن ابدال سے شروع ہو کر پاک چائنا بارڈر خنجراب تک جاتی ہے۔ جہاں سے یہ سڑک چین کے صوبے زنجیانگ میں داخل ہو جاتی ہے۔ پاکستان کی سائیڈ پر اس سڑک کی تعمیر فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن کے سپر د تھی۔ جنہوں نے بڑی جانفشانی سے اس کام کو مکمل کیا۔ شاہراہ ِ قراقرم پر ہمارا پہلا پڑاﺅ بشام میں ہونا تھا۔ کیوں کہ میں چاہتا تھا کہ بشام کے ہوٹلز چیک کر لئے جائیںتا کہ اگر واپسی بھی شاہراہِ قراقرم سے ہونی ہو تو پھر بشام میں رات قیام کے لئے ہوٹل پہلے سے بک کروا لیا جائے۔کیوں کہ مجھے علم تھا کہ ہماری واپسی عید کے تیسرے روز ہونی ہے او ر اس دن سے شمالی علاقہ جات کی جانب سیاحوں کا رش شروع ہو جانا تھا ۔ جس کے باعث اگر ایڈوانس بکنگ نہ ہوتی تو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ ہم نے جس وقت مانسہرہ کراس کیا اس وقت صبح کے چار بج چکے تھے۔ میں اب تک چار گھنٹے لگاتار ڈرائیو کر چکا تھا۔ اس کے باوجود مجھے کوئی تھکاوٹ محسوس نہ ہو رہی تھی البتہ کبھی کبھی نیند کا جھونکا آنے کی کوشش ضرور کرتا تھا۔ لیکن گزشتہ کئی سالوںمیں کئی بار رات کو سفر کرنے کے بعد اب مجھے اندازہ ہو چکا تھا کہ نیند کے غلبے پر کس طرح قابو پایا جا سکتا ہے۔اس مقصد کے لئے میں نے چیونگم اور ٹافیاں رکھی ہوئی تھیں۔ جب بھی نیند کا جھونکا گھیرنے کی کوشش کرتا ۔ ایک چیونگم یا ٹافی منہ میں رکھ لیتا۔ کم از کم پچیس ۔ تیس منٹوں کے لئے نیند سے چھٹکارا حاصل ہو جاتا۔میں نے پہلے دن کا تمام سفر اسی طرح طے کیا اور کہیں بھی نیند کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا۔یوں گلگت پہنچنے تک ٹافیوں کا پورا پیکٹ ختم ہو چکا تھا۔ مانسہرہ سے بشام کا فاصلہ 117کلومیٹر ہے۔ اگر ہم موٹر وے پر سفر کر رہے ہوں تو اتنا طویل فاصلہ صرف ایک گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے اور اگر کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر ہمارے پیارے دوست اور ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال چکوال کے ریڈیالوجسٹ ڈاکٹر ظفر اقبال موجود ہوں تو پھر یہ فاصلہ آدھے گھنٹے میں طے کرنے کی امید بھی رکھی جا سکتی ہے لیکن مانسہرہ ۔ بشام روڈ کیوں کہ پہاڑی علاقہ ہے۔ دونوں جانب گہری کھائیاں ہیں۔ جگہ جگہ موڑ ہیں۔ آپ لاکھ کوشش کریں ۔ آپ گاڑی کی سپیڈ 20-30سے بڑھا نہیں سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ 117کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے میں کم و بیش چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ مانسہر ہ ۔ بشام روڈ پر پہلا بڑ ا قصبہ ڈھوڈیال ہے۔ یہ قصبہ مانسہرہ سے 14کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اور شنکیاری قصبے سے پانچ سات کلومیٹر پہلے واقع ہے۔ اس قصبے میں ہزارہ یونیورسٹی بھی ہے۔ جہاں پر ہزارہ ڈویژن کے علاوہ خیبر پختونخواہ کے دیگر حصوں سے بھی طلباءو طالبات تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں۔ ڈھوڈیال ایک زرعی علاقہ ہے جو سبزیوں اور تمباکو کی پیداوار کے لحاظ سے مشہور ہے۔2005کے زلزلے میں یہ قصبہ بری طرح متاثر ہوا ۔ سینکڑوں مکانات منہدم ہو گئے اور یہاں بیسیوںاموات بھی ہوئیں۔یہاں ایک مینٹل ہسپتال بھی ہے۔ جہاں ذہنی مریضوںکا علاج کیا جاتا ہے جبکہ یہاں کی سب سے اہم وجہ شہرت یہ ہے کہ یہاںمور، چکور ودیگر پرندوں کی پرورش ، دیکھ بھال اور اس پر ریسرچ کے لئے ایشیا ءکا سب سے بڑا فارم موجود ہے۔ڈھوڈیال گاﺅں اور گردونواح کی سینری بہت خوبصورت ہے اور جی چاہتا ہے کہ کچھ دیر یہاں رک کر فوٹو گرافی کی جائے لیکن کیوں کہ ہمارے پاس وقت بہت کم تھا اس لئے رکنے کے ارادے کو ملتوی کیا اور اپنے سفر کا جاری رکھا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات