ضلع چکوال سے تازہ ترین خبریں

ہیڈلائن نیوز

Post Top Ad

Your Ad Spot

اتوار، 10 مئی، 2020

اشخاص کی مداع سرائی اور ہماری صحافت


تحریر:عامرنوازاعوان

محترم قارئین!رمضان المبارک کی ان رحمتوں بھری گھڑیوں میں بندہ ناچیز کو بھی یاد رکھئے گا، آج میں بہت ہی نازک ایشو پر بات کرنا شروع کر رہا ہوں جس پر مجھے اندازہ ہے کہ میری ہی صحافتی کمیونٹی کے اندر موجود کئی احباب کو مجھ پر شدید غصہ بھی آئے گا اور کئے تو مجھ ناچیز پر الزامات کی بارش کرنے سے بھی گریز نہیں کریں گے، لیکن قارئین جس کو اللہ عزت دے اس کی عزت کو کوئی گھٹا نہیں سکتا،اور میری قلم انشاء اللہ حق لکھنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے گی،اک صحافی عوام کی نمائندگی کرتا ہوا بہت اچھا لگتا ہے اور اس طرح وہ اپنا حق صحافت ادا کر رہا ہوتا ہے،لیکن جب وہ اشخاص کی حد سے زیادہ مداح سرائی شروع کرتا ہے تو اس صورت میں وہ صحافت کی حدود و قیود کراس کر کے کسی اور ذمرے میں خود کو شامل کر لیتا ہے۔
قارئین!آپ میری اس بات کی تائید کریں گے کہ کوئی سرکاری ملازم یا عوامی نمائندہ جب اچھا کام کرتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی ہمارا حق بنتا ہے لیکن ان لوگوں کی تعریف لکھتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ یہ سرکاری ملازم اسی بات کی تنخواہ لیتا ہے اور عوامی نمائندہ انہی اچھےکاموں کی بدولت عوام سے ووٹ لے کراسمبلی میں جا کر سرکاری مراعات سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ جب دونوں ہی اپنی ڈیوٹی کا صلہ لے رہے ہیں تو ان اشخاص کی مداح سرائی کا حق بھی نہیں بنتا،افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ کچھ احباب تو سرکاری ملازمین کی تعریفوں میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنے صحافتی منصب اور معیار کو بھول جاتے ہیں اور یہ بات اچھے اور معیاری صحافت کرنے والے دوستوں کے معیار کو گرانے میں بجلی کا کام کرتی ہے، ایسے لوگ صحافت کی بجائے کوئی اور شعبہ جو مداح سرائی کیلئے ہو وہ اپنا لیں تو ان کیلئے ذیادہ بہتر ہو گا، کیونکہ مداح سرائی بھی کر لیں گے اور دلی سکون بھی رہے گا کہ کسی کی تعریفوں پر حد سے بڑھیں گے تو کوئی غیرت مند صحافی ان پر قلم نہیں اٹھائے گا۔کیونکہ وہ صحافت کے شعبہ سے الگ جو ہو کر اپنا کام کریں گے۔مداح سراح صحافیوں سے میرا سوال ہے کہ مداح سرائی صحافت کی کونسی قسم ہوتی ہے؟کیا قصیدہ گوئی صحافت کی قسم ہے؟ قصیدہ گوئی طرز کے کالم کس صنف میں آتے ہیں؟قارئین جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں قصیدہ گو بادشاہوں کے دور میں ہوتے تھےاوراس قصیدہ گوئی کے انعام پاتے تھے، اور شائد آجکل کے دور میں سرکار ملازمین اور ایم این ایز،ایم پی ایز کی مداح سرائی سے بھی ایسے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں گے۔جس وجہ سے اپنی صحافتی حدود بھول جاتے ہیں
بحرحال صحافت کا ایسے کاموں سے کوئی لینا دینا نہیں، ایسے احباب سے میری دست بستہ التماس ہے کہ خود کو بدلیں اور کسی سینئر سے مل بیٹھ کے صحافت کے اصول سیکھیں، پولیس،ڈی سی او،اے سی یا واپڈا و دیگر شعبوں کے افسران کی مداح سرائی کی بجائے ان کو عوامی مسائل سے آگاہ کریں، یہ آپ کی اور میری ڈیوٹی ہے۔ میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں بس اک اچھے کام کی دعوت ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات