ضلع چکوال سے تازہ ترین خبریں

ہیڈلائن نیوز

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 2 ستمبر، 2020

میرا گاؤں نورپور ڈوب گیا

تحریر.ساجدحسین بلوچ

02ستمبر2020ء



نورپورمیراآبائی گاؤں ہے، یوں تو میری پیدائش کھاریاں ہوئی کیونکہ والد مرحوم نے اپنی زندگی کے قیمتی سال پاک فوج کودئیے اور جب میری پیدائش ہوئی تو اس وقت میں میری والد کی یونٹ کھاریاں میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھی، میرے بچپن کا کچھ حصہ کھاریاں میں ہی گزرا، یوں سمجھ لیجئے کہ مجھے کھاریاں کے وہ علاقے اچھی طرح یادہیں جہاں پر میں دن کو گھومتارہتا تھا، والدین نے باہمی مشورے سے مجھے وہاں کے فوجی سکول میں داخل کروایا اورابتدائی ایک، دوکلاسزمیں بھی گیا لیکن پھر والد صاحب کی پاک فوج سے ریٹائرمنٹ ہوگئی اور ہماری فیملی نورپور آگئی، والد نے وہیں مکان تعمیر کیے اور ساتھ ساتھ ہماری کفالت کے لیے پہلے قریبی مائنوں پرملازمت کی اور پھر جلد ہی اپناکاروبار شروع کیا۔

کاروبار کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی بھی ملی لیکن پھر کچھ حالات نے ایسی کروٹ لی کہ میں فیملی سمیت چکوال شہر میں آکر آباد ہوگئے اب روزی روٹی کاسلسلہ بھی یہیں ہے لیکن والدین نے ہمیں اپنے گاؤں سے ایسا باندھ رکھا ہے کہ ہمارا گاؤں کے بغیر گزارا نہیں ہوسکتا، جب بھی کوئی تہوار آتا ہے تو میں اپنے اہل خانہ سمیت گاؤں چلاجاتاہوں، شہر کے گردآلو دماحول سے گاؤں کی تروتازہ آب وہوا جاکر سکون محسوس ہوتاہے، بلوچ خاندان سے تعلق ہونے کی وجہ سے روایات ہیں کہ ہماری شادیاں اپنی برادری سے باہر بمشکل ہوسکتی ہیں، جب ہم کھاریاں سے گاؤں آئے تو مجھے والدین نے گورنمنٹ پرائمری سکول نورپور میں زیورتعلیم سے آراستہ ہونے کے لیے داخل کروادیااوریوں ہم نے سکول جانا شروع کردیا۔

پہلی جماعت سے لے کر پنجم تک محنتی اور جفاکش استاد ملک صفدر حسین سے تعلیم حاصل کی، ملک صفدر حسین کا تعلق بوچھال کلاں سے ہے اور وہ آج بھی تدریس کے شعبے سے ہی منسلک ہیں اور ان دنوں گورنمنٹ پرائمری سکول ڈھوک دند میں قوم کے نونہالوں کامستقبل سنوارنے میں پیش پیش ہیں، ملک صفدر حسین کی شخصیت پرپھر کبھی قلم اٹھاؤں گا اوریہ مجھ پر قرض ہے جو آئندہ کی تحریروں میں ضرور اتارنے کی کوشش کروں گا، والدین نے شادی کے بندھن میں بندھا تو میری شادی گاؤں میں کروادی گئی اس لیے گاؤں کے ساتھ بچپن سے جڑنے والا رشتہ مزید مضبوط ہوگیا، گاؤں کی آب وہوا، بچپن کے دوست، کھیل کود کے دن، بزرگوں کی شفقت اور اپنوں کاپیارآج بھی میرااثاثہ ہیں جو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔

نورپور علاقہ ونہار تحصیل کلرکہارکا ایک گاؤں ہے جس کے آس پاس سیتھی، بھلیال اور بھال کے گاؤں ہیں، تاریخ کی کتابوں میں لکھاہے کہ اس علاقہ کی بلندی سطح سمندرسے 2760فٹ ہے، نورپور دیگر 4گاؤں میں صدر مقام کی حیثیت رکھتاہے، چکوال سرگودھا روڈ پر واقع اس گاؤں کی آبادی کا زیادہ ترانحصارمحنت مزدوری کے علاوہ پاک فوج میں خدمات سرانجام دینے پر فخر محسوس کیاجاتاہے، کچھ عرصہ سے نوجوانوں کا رحجان بیرون ملک کی طرف بھی ہوا ہے، نورپور میں زندگی کی تقریباً ہر آسائش(ماسوائے سوئی گیس) موجود ہے لہذا ایک بڑی کاروباری مارکیٹ بھی ہے، تازہ سبزی، پھل، دودھ ہمہ وقت دستیاب ہیں، زیادہ ترعلاقہ پہاڑی اور پتھریلہ ہے اسی لیے باسیوں کو ”وٹے“ کے لوگ سے بھی پکاراجاتاہے۔

نورپور سے ایک نالہ بہتاہے، بزرگوں کے بقول یہ ایک قدیمی نالہ تھا جس میں اگر دو اونٹ کھڑے کردئیے جاتے تو وہ نظرنہیں آتے مگر وقت کے ساتھ ساتھ یہ نالہ غائب ہوگیا، عموما ً ساون کے مہینے میں ہرسال ذراپانی آتا تو ٹریفک بند ہوجاتی اور پانی سے مکینوں کو کافی دشواری ہوتی، علاقہ کی خوش قسمتی کہ 2013ء کے عام انتخابات میں سیتھی گاؤں سے تعلق رکھنے والے ملک تنویر اسلم سیتھی رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے اور پھر انہیں صوبائی وزیر بنادیاگیا،سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی کابینہ  کاحصہ بنتے ہی تنویر اسلم نے کروڑوں روپے کی لاگت سے ایک نالہ تعمیر کروایا اور گاؤں کی گلیاں بھی تعمیر کروائیں جو عرصہ دراز سے اہل علاقہ کے مطالبات میں شامل تھیں بہر حال نالہ کی تعمیرسے اہل علاقہ کوفائدہ ہوا۔

یوم عاشور کے دنوں میں میں گاؤں میں ہی تھا اورمیری واپسی یوم عاشورکے روز ہوئی، اس سے اگلے روز بارش کاآغازشروع ہوا اور پھر یہ بارش تھمنے میں نہ آئی جوں جوں وقت گزرتاگیا بارش میں شدت آگئی اور پھر پیرکے روزدن ایک بجے سیتھی گاؤں سے آنے والا پانی گزرنا شروع ہوگیا اس نالے نے اچھی کارکردگی کامظاہرہ کیا مگرکب تک،گاؤں سے عزیز رشتہ داروں سے لمحہ بہ لمحہ مایوس کن خبریں مل رہی تھیں، رات 10بجے جوفون کال موصول ہوئی اس نے مجھے کافی بے چین کیا، جس بات کاخدشہ تھا وہی ہوا،قریبی عزیز نے بتایا کہ ونہار کی طرف سے آنے والا پانی اچانک آگیا ہے اور اس نے نالے سے اوپر بڑھنا شروع کردیا میں نے فوراً پہلی خبر چلائی تاکہ ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئے اور اپنی منصوبہ بندی کرلے۔

کچھ دیر گزرنے کے بعد دوبارہ کال آئی اس نے اور زیادہ پریشان کردیا کہ پانی نے نورپوراڈے سے گیپ تک موجود آبادی کے گھروں میں داخل ہونا شروع کردیاہے اور اوپر سے تیز بارش ہے، بجلی بند ہوچکی ہے، اب ہم اپنی مددآپ کے تحت لوگوں کو وہاں سے نکالنے لگے ہیں، سب اپنے یاد آنے لگے میں نے دوبارہ خبرچلائی، ساتھ ہی یہ خبر ڈپٹی کمشنر چکوال عبدالستارعیسانی صاحب کو فارورڈ کردی کیونکہ عیسانی صاحب متحرک آفیسر ہیں اورمجھے امید تھی کہ وہ ضرورانتظامی مشینری کومتحرک کریں گے اور بالکل ایساہی ہوا، اسسٹنٹ کمشنر کلرکہار  کوہدایات جاری ہوئیں جس کے بعد نوجوان آفیسر ریسکیو1122کی ٹیموں کے ہمراہ نورپورکی طرف بڑھ گیا، ریسکیوٹیموں نے بروقت کارروائی کی اور پھنسے ہوئے لوگوں کو پانی سے نکالا، انہیں طبی امداد بھی دی، صبح ہونے تک پانی کی سطح10فٹ تک بلند ہوگئی جس سے دوکانوں کی صرف چھتیں ہی دیکھی جاسکتی تھیں، ویڈیوز اور فوٹوز موصول ہونے لگے، ویڈیو دیکھ کر ایسا لگ رہاتھا کہ جیسے یہ سندھ کا کوئی علاقہ ہو۔

میں نے وہ ویڈیواورمزید خبریں چلائیں، انتظامیہ کی حرکت میں بھی تیزی آگئی، علاقہ کے ایم این اے چوہدری سالک اور رکن پنجاب اسمبلی سردارآفتاب اکبر کسی کو نظر نہ آئے تاہم وہ آئندہ چند دنوں میں ضرور آئیں گے، فوٹوسیشن کروائیں گے، بھولی عوام کوتسلیاں دے کر چلتابنیں گے، ملک تنویر اسلم گھر موجود تھے، وہ ضرور آئے لوگوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا، لوگوں نے بھی انہیں شکرانہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا، سہ پہر کو ڈپٹی کمشنر عبدالستارعیسانی اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد بن اشرف نے بھی نورپور کادورہ کیا، ڈپٹی کمشنر کی طرف سے ضروری اقدامات کیے گئے، فلڈریلیف کیمپ بنایاگیا جہاں پر لوگوں کے لیے ناشتے اور دن کے کھانے کابندوبست کیاگیا،ریلیف آپریشن کے انچارج ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو مصورخان نیازی کاکام بھی قابل تعریف ہے، ان افسران کو دیکھ کر علاقہ کے عوام کو تسلی ضرورہوئی۔

میرے غیرحتمی ابتدائی تخمینہ کے مطابق اس وقت تاجروں کا نقصان کروڑوں روپے میں بنتاہے، علاوہ ازیں آبادی کے مکانات رہائش کے قابل نہیں رہے، علاقہ مکینوں کے گھروں میں سال بھر کااناج دانہ موجود تھا وہ بھی سیلابی پانی کی نذر ہوچکاہے اور یہ سب کچھ ملاکر یہ نقصان کئی کروڑوں میں ہے، نالے پرتجاوزات بڑاسوالیہ نشان ہے، اس کے ساتھ ساتھ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے شفاف نظام وضع کرنا ہوگاتاکہ اصل حق داروں تک امداد پہنچ سکے۔

اپنے گاؤں کو یوں پانی میں ڈوبے دیکھ کر دل اداس ہے، مگر اس سیلاب نے سب کو یکجاکردیا،جس طرح سب نے دکھ کی گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا یہ سب ناقابل فراموش ہے، دو روز میں ایسالگا کہ جیسے ابھی گاؤں کے لوگوں میں وہ خلوص اور پیار مرانہیں ہے،بے شک آج نفسانفسی کاعالم ہے مگر نورپور پرگزرنے والے یہ دودن اپنے بعد انمٹ نقوش چھوڑجائیں گے، دعاہے کہ اللہ تعالیٰ اس آفت سے میرے گاؤں اور اس کے باسیوں کو محفوظ رکھے۔ آمین۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot

صفحات